محترم قارئین! میں نے جب ہوش سنبھالا ہی تھا تو مجھے مشکلات‘ غربت اور تنگدستی نے گھیر لیا‘ والدین انتہائی غریب اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے‘ میں نے شعور میں قدم رکھا تو اپنے چاروں طرف غربت کا جال دیکھا‘ جس سے نکلنے کا کوئی چارا نہ میرے والدین کے پاس تھا اور نہ میرے۔ میں نے بھی ان ہی کی طرح مزدوری شروع کردی‘ کیونکہ پڑھانا لکھانا نہ ان کے بس میں تھا اور نہ ہی میری خواہش! بس خواہش تھی تو صرف ایک ہی رات کو پیٹ بھر کر کھانا کھانا ہے۔ بس ایسے ہی حالات میں نجانے کب بچپن سے جوانی میں قدم رکھا۔ غربت تھی کہ دن بدن بڑھتی ہی جارہی تھی‘ والدین بوڑھے ہوئے اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر کھانستے کھانستے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی تجہیز وتکفین بھی محلہ داروں نے مل کر کی‘ ان کے جانے کے بعد گھر کے حالات بھی کچھ ایسے تھے کہ خود کو روٹی کے لالے پڑے رہتے شادی کہاں سے کرتا؟ اسی طرح شب و روز گزرتے گئے میں اور میرے بڑے بھائی نے شادی ہی نہ کی۔ جوانی ڈھلنا شروع ہوگئی۔ میں یہاں یہ بات بتانا ضرور ی سمجھتا ہوں کہ میری رہائش لاہور کے ایک گنجان آباد علاقہ میں ہے۔ میرے گھر کے صحن میں ہی قدیمی مزار جو کہ تقریباً اڑھائی تین سو سال پڑانا ہے۔ میں روزانہ اس مزار کی صفائی کرتا‘ صاحب مزار کو کچھ نہ کچھ پڑھ کر ہدیہ کرتا رہتا۔ جب میری عمر پچاس سال ہوئی تو ایک دن اکیلا بیٹھا بیٹھا بیہوش ہوگیا اور کئی گھنٹے بے ہوش رہا‘ محلہ داروں نے میری یہ حالت دیکھی تو فروری 2006ء میں میری شادی ایک بانجھ اور طلاق یافتہ عورت کے ساتھ کروا دی۔
زندگی کی پچاس بہاریں دیکھنے کے اللہ تعالیٰ نے بیوی جیسی نعمت عطا فرمائی‘ شادی کے بعد احساس ہوا کاش میں شادی بیس یا پچیس سال کی عمر میں ہی کروا لیتا‘ خیر جو ہوا سوا‘ نئی زندگی ملی‘ نئے رشتہ دار۔ گھر کا پکا کھانا ملتا‘ عزت ملتی‘ کوئی جی کہنے والا ملا۔ مجھے لگا میں دنیا کا امیر ترین اور خوش قسمت ترین انسان ہوں‘ بیوی بھی صابر‘ جتنا کماتا اسی میں بھی صبر شکر کرتی۔ میری بیوی کو اولاد نہ ہونے کا بہت زیادہ غم اور اداسی تھی‘ میں نے اس کی اداسی دور کرنے گھر میں بلی لے آیا‘ پودے لگالیے‘ محلے کے ایک دوست نے گھر میں آسٹریلین طوطے پال رکھے تھے‘ اس نے چند طوطے ایک پنجرے میں ڈال کر مجھے بھی دے دئیے‘ ہم دونوں مزار شریف کی صفائی کرتے‘ قرآن پاک پڑھ کر اللہ والے کی روح کو ہدیہ کرتے‘ پرندوں کو دانہ ڈالتے‘ مرغی سے پیار کرتے اسی طرح اپنا دل بہلا لیتے۔اسی دوران میرے بڑے بھائی جو کہ ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا‘ اس کے پاؤں پر ایک زخم بنا‘ وہ بڑھتا بڑھتا گینگرین بن گیا‘ زخم میں شدید بدبو پیدا ہوگئی‘ ہر وقت اس سے پس بہتی رہتی‘ جس کمرے میں بھائی ہوتا وہاں جانا دشوار ہوگیا‘ لیکن میری خدمت گزار بیوی نے بھائی کے زخم کو روز صاف کرتی‘ اس پر مرہم لگاتی‘ بھائی کو کھانا دیتی‘ وقت پر ادویات دیتی‘ بھائی کی آنکھوں میں آنسو ہوتے اور وہ زیرلب میری اہلیہ کو دعائیںدیتے رہتے‘ میرے بھائی اسی مرض میں 2010ء میں وفات پاگئے۔ اسی دوران ایک مخیر شخص نے چھوٹی سی رقم دی کہ اپنا کاروبار شروع کرلو۔ میں نے چائے کا ہوٹل کھول لیا‘ اللہ تعالیٰ 2011ء میں مجھے بیٹے سے نوازا اس وقت میری عمر 55 سال تھی۔ میرا اور میری بیوی کا خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ادھر بیٹا پیدا ہوا ادھر ہوٹل چل پڑا‘ آمدن دن بدن بڑھ رہی تھی‘ 2014ء اللہ تعالیٰ نے دوسرا بیٹا عطا فرمادیا اس وقت میری عمر 58 سال تھی۔ میرا کاروبار اتنا چل پڑا کہ میں نے اپنے ہوٹل پر پانچ ملازم رکھ لیے تھے‘ 24 گھنٹے ہوٹل کھلا رہتا اور خوب بکری ہوتی۔ اب تیسرا مہمان2016ء (وقت تحریر) میں آنے والا ہے اور س وقت میری عمر 60 سال ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیمار بھائی کی خدمت‘ پرندوں اور بلی کا خیال رکھنے اور کبھی کسی کے ساتھ بُرا رویہ اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرنے کا اجر زندگی کے آخری دس سالوں میں خوشیاں ‘ اولاد اور دولت عطا کرکے دیا۔ جو پچاس سال کی عمر تک تصور میں بھی نہیں تھا۔ میں حقیقت میں پچاس نہیں دس برس جیا ہوں۔
میں پانچ سال سے حکیم طارق محمود مجذوبی صاحب کو سن رہاہوں ۔ان کی تعلیمات سے متاثر ہوکر میں نے کچھ اعمال شروع کئے جن میں سورۃ کوثر 129 بار،افحبتم اور ازان والا عمل،سورۃ مائدہ گیارہ بار پڑھ کر آسمان کی طرف پھونک مارنا،آخری چھ سورتیں۔۔۔۔میں نے یہ اعمال تین سال قبل شروع کئے تو اس کے مجھے بہت فوائد ملے جن میں سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ میرا معاش کا مسئلہ حل ہوگیا اور گھر میں بھی پیار محبت آگیا ۔۔(ق۔ ع، دیپال پور)
میرے معاشی گھریلو حالات مشکلات کا شکار تھے مجبوری میں نوکری کرنی پڑیلیکن کئی ہفتوں کی تنخواہ آفس والے ادا نہیں کر رہے تھے کسی نے سورہ فاتحہ اور اخلاص والا عمل بتایا میں نے صرف ایک رات ہی یہ عمل کیا اور اگلے روز دفتر والوں نے پورے پیسے ادا کر دئے الحمدللہ!(ثمرہ خلجی ‘لندن)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں